آسماں سر پہ اٹھایا بھی نہیں جائے گا

آسماں سر پہ اٹھایا بھی نہیں جائے گا
ہاں مگر اس کو بھلایا بھی نہیں جائے گا


حوصلہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ہم سے
دوسرا عشق نبھایا بھی نہیں جائے گا


شکوۂ ظلمت شب خوب کیا جائے گا
اک دیا خود کا جلایا بھی نہیں جائے گا


خاک اس شخص سے تعبیر پہ اسرار کریں
جس سے کچھ خواب دکھایا بھی نہیں جائے گا


تم نے اچھا ہی کیا ترک محبت کر کے
تم سے یہ مصرع اٹھایا بھی نہیں جائے گا


وہ بھی ممکن ہے نہ آنے کے بہانے ڈھونڈے
اور اب ہم سے بلایا بھی نہیں جائے گا


پوچھنے آئے ہیں احوال وہ عبدالقادرؔ
کیا بتائیں کہ بتایا بھی نہیں جائے گا