اب کیا یہ حساب کتاب رکھیں کس کس نے ہمیں برباد کیا

اب کیا یہ حساب کتاب رکھیں کس کس نے ہمیں برباد کیا
کس کس نے خوشیاں دیں ہم کو کس کس نے ہمیں ناشاد کیا


اک آس تھی سو وہ ٹوٹ گئی اک سانس تھی وہ بھی چھوٹ گئی
اب یہ کاہے کی ہچکی ہے اب کون ہے جس نے یاد کیا


وہ عشق تھا یا مجبوری تھی اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہر روز معافی کے بدلے اک تازہ ستم ایجاد کیا


آسان نہیں تھا اس کے بنا پر گزر گئی جو گزرنی تھی
وہ دل جو کبھی اجاڑا ہی نہیں ترے غم نے جسے آباد کیا


یہ پیار ویار کی باتیں سب دنیا جسے شعر سمجھتی ہے
سب اس کی جفا کے قصے ہیں جس نے ہمیں لائق داد کیا


جب تم ہی نہیں حاصل ہم کو کیا حاصل دنیا ملنے سے
بے جا یہ خواہش عشق رہی بے جا خود کو فرہاد کیا


برباد تو ہونا تھا آخر اک دن تو کسی کے ہاتھوں سے
پر ناز کرو عبدالقادرؔ کہ اس نے تمہیں برباد کیا