شاعری

بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ

بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ خودی نے وا کئے ہیں راز کیا پیچیدہ پیچیدہ نظر حیراں طبیعت ہے ذرا رنجیدہ رنجیدہ ہوا دل ہے کسی کا مبتلا پوشیدہ پوشیدہ فضاؤں سے فسانہ سن کے اس کے درد ہجراں کا گلوں نے چن لئے اشک صبا لرزیدہ لرزیدہ اسی مست جوانی کے قدم بڑھ کر لئے ہوں گے چمن میں چل ...

مزید پڑھیے

کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے

کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے بے خودی وہ تھی کہ ان کے آستاں تک آ گئے وقت کی رو میں بہے تھے جانے کس انداز میں یہ خبر بھی ہو نہ پائی ہم کہاں تک آ گئے خود سکون آگہی نے روح کو تسکین دی ہم بچھڑ کر جب غبار کارواں تک آ گئے سر‌ فروشان وفا کو بھی نہ چھوڑا عشق نے مرحلے ساری خطا کے ...

مزید پڑھیے

جشن برباد خیالوں کا منا لوں تو چلوں

جشن برباد خیالوں کا منا لوں تو چلوں مژۂ شوق کو غم ساز بنا لوں تو چلوں میری ہستی میں سمٹ آئے اندھیرے غم کے شمع الفت کی ترے غم میں جلا لوں تو چلوں دل بے تاب ٹھہر اشک تمنا کے طفیل بزم فرقت کو سر شام سجا لوں تو چلوں کیف طاری ہے بہت آج تصور میں ترے اب ذرا ہوش کے ماحول میں آ لوں تو ...

مزید پڑھیے

ان کی دیرینہ ملاقات جو یاد آتی ہے

ان کی دیرینہ ملاقات جو یاد آتی ہے چشم تر صورت پیمانہ چھلک جاتی ہے دل میں آتے ہی سر شام تصور تیرا رات ساری مری آنکھوں میں گزر جاتی ہے یہ جنوں ہے کہ محبت کی علامت کوئی تیری صورت مجھے ہر شے میں نظر آتی ہے ساقیا جس پہ نوازش ہو کرم ہو تیرا اس کے ہر جام کی تاثیر بدل جاتی ہے جب بھی ...

مزید پڑھیے

ہو گئی عقدہ کشائی ترے دیوانے سے

ہو گئی عقدہ کشائی ترے دیوانے سے راز کونین کھلے عشق کے افسانے سے ہو گئی عشق مجازی سے حقیقت کی نمود راہ کعبے کی نظر آئی ہے بت خانے سے قطرے قطرے کا مجھے دینا ہے محشر میں حساب مے چھلک جائے نہ ساقی کہیں پیمانے سے جانے کتنے دل مشتاق لیے ہے ارماں کاش شب ٹھہر بھی جائے ترے آ جانے ...

مزید پڑھیے

عشق میں کچھ اس طرح دیوانگی چھائی کہ بس

عشق میں کچھ اس طرح دیوانگی چھائی کہ بس کوچۂ ارباب دل سے یہ صدا آئی کہ بس جب قدم دیوانگی کی حد سے آگے بڑھ گئے دیکھنے والوں کو مجھ پر وہ ہنسی آئی کہ بس بوئے مشکیں مسکرائی پھول خوشبو لے اڑے اس سراپا ناز کی یوں زلف لہرائی کہ بس دیکھ کر وہ بانکپن وہ حسن وہ رنگیں شباب دل کی حسرت نے بھی ...

مزید پڑھیے

تمہارے آنے کا جب جب بھی اہتمام کیا

تمہارے آنے کا جب جب بھی اہتمام کیا تو حسرتوں نے ادب سے مجھے سلام کیا کہاں کہاں نہ نظر نے تمہاری کام کیا اتر کے دل میں امیدوں کا قتل عام کیا غموں کے دور میں ہنس کر جو پی گئے آنسو تو آنے والی مسرت نے احترام کیا یہ کس نے چن کے مسرت کے پھول دامن سے غموں کا بوجھ مری زندگی کے نام ...

مزید پڑھیے

بڑھا تنہائی میں احساس غم آہستہ آہستہ

بڑھا تنہائی میں احساس غم آہستہ آہستہ ہمیں یاد آئے سب اہل کرم آہستہ آہستہ دل مضطر کی بیتابی کا عالم کیسا عالم ہے کھنچا جاتا ہے دل سوئے صنم آہستہ آہستہ چلا ہوں منزل جاناں میں کچھ ایسے تأثر سے نظر شرمندہ شرمندہ قدم آہستہ آہستہ نگاہ لطف کس کی ہو گئی میرے مقدر پر یہ کس کا ہو گیا ...

مزید پڑھیے

زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر

زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر ہر خوشی لگتی ہے دل کو اجنبی تیرے بغیر فصل گل نے لاکھ پیدا کی فضائے پر بہار غنچۂ دل پر نہ آئی تازگی تیرے بغیر تشنہ کامی کو مری سیراب کرنے کے لئے اٹھتے اٹھتے وہ نظر بھی رہ گئی تیرے بغیر کوئی جلوہ کوئی منظر مجھ کو بھاتا ہی نہیں چاند کی صورت بھی ...

مزید پڑھیے

وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے

وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے یہی تضاد تو جیون میں رنگ بھرتا ہے میں اس کی رائے سے کچھ اتنا مطمئن بھی نہیں مہر بہ لب ہوں کہ سکہ اسی کا چلتا ہے میں اک چراغ تھا طوفاں سے دوستی کر لی خرد نہ سمجھے اسے پر جنوں سمجھتا ہے یزید مورچہ جیتا تھا جنگ ہارا تھا یہ سچ رگوں میں مرے انقلاب ...

مزید پڑھیے
صفحہ 34 سے 4657