شاعری

آہ و فریاد کا اثر دیکھا

آہ و فریاد کا اثر دیکھا خود کو مجبور بیشتر دیکھا بن گیا ہے نقاب تنگ دلی شہرۂ وسعت نظر دیکھا جسم نے ڈال دی سپر جب سے روح کو عازم سفر دیکھا حشر کا معتقد ہوا جس نے منظر مطلع سحر دیکھا ناؤ ساحل پہ لگ گئی آ کر اپنے شانہ پہ ان کا سر دیکھا طمع پندار جور حرص فریب گامزن کاروان زر ...

مزید پڑھیے

پھول چہرہ آنسوؤں سے دھو گئے

پھول چہرہ آنسوؤں سے دھو گئے آئے تھے ہنسنے چمن میں رو گئے دل یہ اجڑا ہے کہ ان کی یاد کو مدتیں گزریں زمانے ہو گئے کس لئے محفل میں اتنی برہمی ہم چلے جاتے ہیں اٹھ کر لو گئے جب چلیں گے کاٹنے کل فصل کو تب کھلے گا آج کیا کیا بو گئے کوئی ٹھہرا ہے کسی کے واسطے کہہ رہے تھے جائیں گے ہم سو ...

مزید پڑھیے

ہمارے خواب کچھ انعکاس لگتا ہے

ہمارے خواب کچھ انعکاس لگتا ہے یہ آدمی تو ہمیں روشناس لگتا ہے گزارشات بھی باعث تھیں برہمی کا کبھی اب اس کا حکم بھی اک التماس لگتا ہے جو اپنے نام سے تحریر اس نے بھیجی ہے ہمارے خط کا کوئی اقتباس لگتا ہے بلا سبب یہ کرے بد گمان کیوں آخر درست! ناصح! قیافہ شناس لگتا ہے وہ ہم سے ترک ...

مزید پڑھیے

جو بات کہنی ہے مجھ کو وہ کہنے والا ہوں

جو بات کہنی ہے مجھ کو وہ کہنے والا ہوں کسی کے خوف سے کب چپ میں رہنے والا ہوں کہاں کہاں مجھے روکو گے بند باندھوگے میں چڑھتا دریا ہوں ہر سمت بہنے والا ہوں تمہارے چاہنے والوں سے میں بھی واقف ہوں تمہارا درد میں تنہا ہی سہنے والا ہوں مری بھی بات سنو میری شکل پہچانو تمہارے شہر کا اک ...

مزید پڑھیے

فرد کو عصر کی رفتار لیے پھرتی ہے

فرد کو عصر کی رفتار لیے پھرتی ہے جنس کو گرمئ بازار لیے پھرتی ہے پر پرواز سے انکار نہیں ہے لیکن کیجیئے غور تو منقار لیے پھرتی ہے اس کی قسمت میں رسائی نہ سہی عاشق کو حسرت لذت اظہار لیے پھرتی ہے طالب علم کو ادراک فضیلت کے بجائے خواہش طرہ و دستار لیے پھرتی ہے دونوں ٹانگوں کا ...

مزید پڑھیے

لہو کو دل کے جو صرف بہار کر نہ سکے

لہو کو دل کے جو صرف بہار کر نہ سکے علاج گردش لیل و نہار کر نہ سکے خدا نہ کردہ گرے کوئی اپنی نظروں سے نہ ہو کہ اپنا کوئی اعتبار کر نہ سکے بھر آئی آنکھ سر بزم ہو گئے خاموش ہم ان سے بات جو بیگانہ وار کر نہ سکے وہ آ گئے تو سمٹ آئے سب نگاہوں میں ہزاروں خواب کہ جن کا شمار کر نہ ...

مزید پڑھیے

کیوں فنا سے ڈریں بقا کیا ہے

کیوں فنا سے ڈریں بقا کیا ہے بجھ گیا دل ہی جب رہا کیا ہے بھر گیا کیوں تصنعات سے جی پردہ آنکھوں سے اٹھ گیا کیا ہے سرمۂ دیدہ ہائے اہل نظر بن گئی ہے جو خاک پا کیا ہے کیسے دنیا وجود میں آئی آفرینش کا مدعا کیا ہے جس میں اربوں جہاں سمائے ہیں وہ فضا کیا ہے وہ خلا کیا ہے چاند کی سمت ہیں ...

مزید پڑھیے

آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے

آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے جھوٹا ہی سہی آپ کوئی خواب تو دیجے ہم سنگ گراں ہیں خس و خاشاک ہیں کیا ہیں معلوم ہو پہلے کوئی سیلاب تو دیجے ہم جام بکف بیٹھے رہیں اور کہاں تک تقدیر میں امرت نہیں زہراب تو دیجے ہم کو بھی ہے یہ شوق کہ ڈوبیں کبھی ابھریں ہو گردش ایام کا گرداب تو ...

مزید پڑھیے

چھٹی کا دن ہے چاہئے جیسے گزاریئے

چھٹی کا دن ہے چاہئے جیسے گزاریئے مرغا لڑائیے کہ کبوتر اڑائیے سڑکوں پہ گھومنے سے طبیعت ہو جب اچاٹ ہوٹل میں بیٹھ جائیے قصے سنائیے کھا کھا کے پان پھونکئے سگریٹ نو بہ نو پیشہ وران شہر سے پینگیں بڑھائیے افسر کو دیجے گھر پہ بلا دعوت نگاہ دفتر میں جا کے رعب پھر اپنا جمائیے رشوت کے ...

مزید پڑھیے

جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے

جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے عمر عزیز اپنی نہ یوں ہی گنوائیے دن کو ٹھٹھرتی دھوپ میں ٹانگیں پساریے راتوں کو جاگ جاگ کے محفل سجائیے چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے نام و نمود کی ہو اگر آپ کو ہوس جیسے بھی ہو کسی طرح بس چھپتے جائیے وہ اجنبی بھی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 32 سے 4657