شاعری

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے بہت نادم کیا تھا ہم نے اک شیریں سخن کو سو اب خود پر ...

مزید پڑھیے

کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے

کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے جہاں سے دل کی طرف زندگی اترتی تھی نگاہ اب بھی اسی بام پر جمی ہوئی ہے ہے انتظار اسے بھی تمہاری خوش بو کا ہوا گلی میں بہت دیر سے رکی ہوئی ہے تم آ گئے ہو تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ...

مزید پڑھیے

غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں

غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں جو آتا ہے نظر میں اس کو لے آتے ہیں دل میں نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کر رہے ہیں نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کر رہے ہیں تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن ...

مزید پڑھیے

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم جو کج کلاہ تھے ان سے تو بات بھی نہیں کی کبھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود سو ہم نے ذات کی ...

مزید پڑھیے

چپ ہے آغاز میں، پھر شور اجل پڑتا ہے

چپ ہے آغاز میں، پھر شور اجل پڑتا ہے اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے یاد کا پھول مہکتے ہی نواح شب میں کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے حجرۂ ذات میں سناٹا ہی ایسا ہے کہ دل دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ...

مزید پڑھیے

سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گم ہو گیا ہے

سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گم ہو گیا ہے بتا دوں؟ مجھ سے خود اپنا پتا گم ہو گیا ہے تمہارے دن میں اک روداد تھی جو کھو گئی ہے ہماری رات میں اک خواب تھا، گم ہو گیا ہے وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی کہانی میں کہیں وہ ماجرا گم ہو گیا ہے ذرا اہل جنوں آؤ، ہمیں رستہ سجھاؤ یہاں ...

مزید پڑھیے

بہت خجل ہیں کہ ہم رائیگاں بھی زندہ رہے

بہت خجل ہیں کہ ہم رائیگاں بھی زندہ رہے جہاں پہ تو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی کہ تو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے تجھے پہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا کہ تو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا یہ کون ہیں جو ...

مزید پڑھیے

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا ہزار زخم سہے اور دل بڑا رکھا چراغ یوں تو سر طاق دل کئی تھے مگر تمہاری لو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا خرد سے پوچھا جنوں کا معاملہ کیا ہے جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں جو خاک تھا سو اسے خاک میں ملا رکھا ہزار شکر ترا اے ...

مزید پڑھیے

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود دیکھیے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود اتنا سناٹا کہ جیسے اولیں شام فراق دم بخود ہے آسماں بھی اور ہوا بھی دم بخود یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدت کہ جب رہ گئی ...

مزید پڑھیے

ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو

ہوش جس وقت بھی آئے گا گرفتاروں کو خس کی مانند اڑا ڈالیں گے دیواروں کو زندگی کرنی ہے تم کو تو تڑپنا سیکھو زنگ لگ جاتا ہے رکھی ہوئی تلواروں کو زخم سینے پہ کسی کے نہیں آیا اب تک آزمایا ہے بہت قوم کے سرداروں کو اتنے اونچے بھی نہ اٹھو کہ سنبھل بھی نہ سکو ہم نے گرتے ہوئے دیکھا کئی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2910 سے 4657