شاعری

ایک تاریک خلا اس میں چمکتا ہوا میں

ایک تاریک خلا اس میں چمکتا ہوا میں یہ کہاں آ گیا ہستی سے سرکتا ہوا میں شعلۂ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہوا میں آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار خود سوز اک جہنم کی طرح خود میں بھڑکتا ہوا میں منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے چاک پر گھومتا بل کھاتا ...

مزید پڑھیے

ترے جمال سے ہم رونما نہیں ہوئے ہیں

ترے جمال سے ہم رونما نہیں ہوئے ہیں چمک رہے ہیں مگر آئنہ نہیں ہوئے ہیں دھڑک رہا ہے تو اک اسم کی ہے یہ برکت وگرنہ واقعے اس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں بتا نہ پائیں تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں ترا کمال کہ آنکھوں میں کچھ زبان پہ کچھ ہمیں تو معجزے ایسے ...

مزید پڑھیے

بزعم عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا

بزعم عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا اک آئینا تھا اسی کو سیاہ میں نے کیا یہ شہر کم نظراں یہ دیار بے ہنراں کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا حریم دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال سو گل اسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا وہی یقین رہا ہے جواز ہم سفری جو گاہ اس نے کیا اور گاہ میں نے کیا بس ایک دل ...

مزید پڑھیے

ادھر کچھ دن سے دل کی بیکلی کم ہو گئی ہے

ادھر کچھ دن سے دل کی بیکلی کم ہو گئی ہے تری خواہش ابھی ہے تو سہی کم ہو گئی ہے نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو تجسس بڑھ گیا ہے ...

مزید پڑھیے

رفتگاں کی صدا نہیں میں ہوں

رفتگاں کی صدا نہیں میں ہوں یہ ترا واہمہ نہیں میں ہوں تیرے ماضی کے ساتھ دفن کہیں میرا اک واقعہ نہیں میں ہوں کیا ملا انتہا پسندی سے کیا میں تیرے سوا نہیں میں ہوں ایک مدت میں جا کے مجھ پہ کھلا چاند حسرت زدہ نہیں میں ہوں اس نے مجھ کو محال جان لیا میں یہ کہتا رہا نہیں میں ہوں میں ...

مزید پڑھیے

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے یا پھر مرا وجود ہی بیزار مجھ میں ہے میری غزل کسی کے تکلم کی بازگشت اک یار خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے حد ہے کہ تو نہ میری اذیت سمجھ سکا شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے وہ بھی عدم سے برسر پیکار مجھ میں ہے تو ...

مزید پڑھیے

اس طرح دیکھتا ہوں ادھر وہ جدھر نہ ہو

اس طرح دیکھتا ہوں ادھر وہ جدھر نہ ہو جیسے دکھائی دے کوئی صورت مگر نہ ہو یہ شہر نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو اس طرح چل رہا ہے رعونت کے ساتھ وہ جیسے خرام ناز سے آگے سفر نہ ہو میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے ممکن ہے یہ سخن کبھی بار دگر نہ ...

مزید پڑھیے

اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے ملے ہوئے بھی

اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے ملے ہوئے بھی بھلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گلے ہوئے بھی ہماری راہ الگ ہے، ہمارے خواب جدا ہم ان کے ساتھ نہ ہوں گے، جو قافلے ہوئے بھی ہجوم شہر خرد میں بھی ہم سے اہل جنوں الگ دکھیں گے، گریباں جو ہوں سلے ہوئے بھی ہمیں نہ یاد دلاؤ ہمارے خواب سخن کہ ایک عمر ...

مزید پڑھیے

مرے خوابوں سے اوجھل اس کا چہرہ ہو گیا ہے

مرے خوابوں سے اوجھل اس کا چہرہ ہو گیا ہے میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ ہجوم شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے جو باغ آرزو تھا اب وہی ہے دشت وحشت یہ دل کیا ہونے ...

مزید پڑھیے

وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں

وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں میں اپنے آپ کو تیرے سبب سے جانتا ہوں ترے یقین سے ہٹ کر تو واہمہ ہو جاؤں تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے ذرا سا دکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں ابھی میں خوش ہوں تو غافل نہ جان خود سے مجھے نہ جانے کون سی لغزش پہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2908 سے 4657