شاعری

ہزار بار وہ بیٹھا ہزار بار اٹھا

ہزار بار وہ بیٹھا ہزار بار اٹھا بچا نہ شہر میں کچھ بھی تو چوب دار اٹھا ازل سے راہ نوردی جو تھی وہ اب بھی ہے ابھی چھٹا تھا ابھی راہ میں غبار اٹھا نفس کے تار کی گرہیں کہ کائنات کے خم سراب دل میں تھا صحرا کے آر پار اٹھا خموشیوں کے تکلم کو پوجنے والا وہی تھا بزم میں آخر گناہ گار ...

مزید پڑھیے

میں سنتا رہتا ہوں نغمے کمال کے اندر

میں سنتا رہتا ہوں نغمے کمال کے اندر کئی صدائیں پرندوں میں ڈال کے اندر جو واہمے مرا اندر اجاڑ سکتے ہیں میں رکھ رہا ہوں انہیں بھی سنبھال کے اندر تمام مسئلے نوعیت سوال کے ہیں جواب ہوتے ہیں سارے سوال کے اندر جگہ جگہ پہ کوئی تو ہزارہا نشتر اتارتا ہے رگ احتمال کے اندر طرح طرح کے ...

مزید پڑھیے

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا یا کسی دن مری فرصت کو میسر ہو جا تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے اب تمنا سے گزر میرا مقدر ہو جا میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اٹھے ریگ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا اے ...

مزید پڑھیے

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں بے اماں سائے کا بھی رکھ باد وحشت کچھ خیال دیکھ کر چل درمیان بام و در میں بھی تو ہوں رات کے پچھلے پہر پر شور سناٹوں کے بیچ تو اکیلی تو نہیں اے چشم تر میں بھی تو ہوں تو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بہ ...

مزید پڑھیے

تردید انا عشق میں کرنے کا نہیں میں

تردید انا عشق میں کرنے کا نہیں میں اب ترک مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر اک تیرے کہے سے تو ٹھہرنے کا نہیں میں کل رات عجب دشت بلا پار کیا ہے سو بار سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں کیوں مملکت عشق سے بے دخل کیا تھا اب مسند غم سے تو اترنے کا نہیں میں دم ...

مزید پڑھیے

کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی

کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی بس اپنی اپنی ترجیحات اپنی اپنی خواہش ...

مزید پڑھیے

نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے

نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے سر مژگاں بگولے آ کے واپس جا رہے ہیں عجب طوفان سینے سے اٹھایا جا رہا ہے مرا غم ہے اگر کچھ مختلف تو اس بنا پر مرے غم کو ہنسی میں ...

مزید پڑھیے

بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رخی سے

بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رخی سے کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے کسے الزام دوں میں رائیگاں ہونے کا اپنے کہ سارے فیصلے میں نے کیے خود ہی خوشی سے ہر اک لمحے مجھے رہتی ہے تازہ اک شکایت کبھی تجھ سے کبھی خود سے کبھی اس زندگی سے مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی میں ...

مزید پڑھیے

وہ چراغ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا

وہ چراغ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوس قرار میں بجھ گیا مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا مری لو کو جس میں اماں ملی میں اسی بہار میں ...

مزید پڑھیے

اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا

اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا تو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا سا فقط اک دہن رہ گیا حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تو نے بھی کچھ کہا میں نے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2906 سے 4657