شاعری

دیں دیدۂ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک

دیں دیدۂ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک کب تک کہ کہو جذبۂ تعمیر کو تخریب اے اہل صفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں کی جائے مہ و نجم کی تسخیر کہاں تک اے شہر انا تیرے فریبوں کے بھرم میں آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک ہر آن ...

مزید پڑھیے

ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے

ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے ہے نسبت نومیدیٔ تاریکیٔ شب جو اک مژدۂ امید فروزاں بھی وہی ہے پانی میں تلاطم بھی اسی چاند کے باعث اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ...

مزید پڑھیے

اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے

اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے برف احساس کی جمی سی ہے چلئے احباب کو تو جان گئے یہ مصیبت تو عارضی سی ہے کچھ تو چارہ گری کرے کوئی آج کچھ درد میں کمی سی ہے آج چپکے سے کس کی یاد آئی دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے کس نے ترک وفا کیا پہلے یہ شکایت بھی باہمی سی ہے حسرتو اب تو ہو چلو خاموش نبض ...

مزید پڑھیے

ہزار رنج سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے

ہزار رنج سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے یہ کیسی خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے وہ حبس جاں ہے برسنے سے بھی جو کم نہ ہوا گھٹن غضب کی ہے اک چشم تر کے ہوتے ہوئے مرے وجود کو پیکر کی ہے تلاش ابھی میں خاک ہوں ہنر کوزہ گر کے ہوتے ہوئے سحر اجالنے والے کرن کرن کے لیے ترس رہے ہیں فروغ سحر کے ہوتے ...

مزید پڑھیے

وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں

وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں اگر خفا ہو تو برہم ستار گاں ہو جائیں ہوائیں شوق سمندر کی مہرباں ہو جائیں طلب سفینہ ہو ارمان بادباں ہو جائیں بیاس دوستی اتنے بھی اب نہ دو الزام کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں ہو جائیں قلندروں کے لیے شہر کیا ہے صحرا کیا غرض تو ٹھور ...

مزید پڑھیے

پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے

پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے فصیل حرف میں معنی کا در بنایا جائے حساب سود و زیاں ہو چکا بہت اب کے وفور شوق کو عرض ہنر بنایا جائے لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے ابھی سے کیا کوئی زاد سفر بنایا جائے فراز دار ...

مزید پڑھیے

یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا

یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا وہ حوصلہ کہ پھیر دے جو آندھیوں کے رخ وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل پہلے وہ شخص بھی مرے ...

مزید پڑھیے

زعم ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے

زعم ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے اور بدن طرۂ پیچاک سے باندھا گیا ہے ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے اور پھر گردش افلاک سے باندھا گیا ہے خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے ایک رشتہ جو مرا خاک سے ...

مزید پڑھیے

محفل سے پھر تنہائی تک آنے میں

محفل سے پھر تنہائی تک آنے میں وقت لگے گا خاموشی اپنانے میں اس سے بچھڑنا مجبوری ہو سکتی ہے کافی وقت لگا دل کو سمجھانے میں ہوش آیا تو اپنے آپ سے پوچھیں گے خود کو کتنا کھویا اس کو پانے میں

مزید پڑھیے

کلمۂ بے خودی کے مجرم ہیں

کلمۂ بے خودی کے مجرم ہیں آپ سے دوستی کے مجرم ہیں آؤ غم کا طواف کرتے ہیں ہم فقط اک خوشی کے مجرم ہیں ہم چڑھاتے ہیں سولیاں جن کو قوم کی رہبری کے مجرم ہیں وقت منصف ہے خود سزا دے گا ہم اگر شاعری کے مجرم ہیں اے محبت اگر خدا ہے تو ہم تری بندگی کے مجرم ہیں

مزید پڑھیے
صفحہ 2900 سے 4657