یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے
یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے آئیے آ جائیے آ جائیے پھر وہی دانستہ ٹھوکر کھائیے پھر مری آغوش میں گر جائیے میری دنیا منتظر ہے آپ کی اپنی دنیا چھوڑ کر آ جائیے یہ ہوا ساغر یہ ہلکی چاندنی جی میں آتا ہے یہیں مر جائیے
یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے آئیے آ جائیے آ جائیے پھر وہی دانستہ ٹھوکر کھائیے پھر مری آغوش میں گر جائیے میری دنیا منتظر ہے آپ کی اپنی دنیا چھوڑ کر آ جائیے یہ ہوا ساغر یہ ہلکی چاندنی جی میں آتا ہے یہیں مر جائیے
راتوں کو تصور ہے ان کا اور چپکے چپکے رونا ہے اے صبح کے تارے تو ہی بتا انجام مرا کیا ہونا ہے ان نو رس آنکھوں والوں کا کیا ہنسنا ہے کیا رونا ہے برسے ہوئے سچے موتی ہیں بہتا ہوا خالص سونا ہے دل کو کھویا خود بھی کھوئے دنیا کھوئی دین بھی کھویا یہ گم شدگی ہے تو اک دن اے دوست تجھے بھی ...
نہ کشتی ہے نہ فکر نا خدا ہے دل طوفاں طلب کا آسرا ہے الٰہی خیر ناموس وفا کی انہیں بھی فکر ناموس وفا ہے سبک ساران ساحل جانتے ہیں دل ساحل میں کیا طوفاں بپا ہے نہیں یہ نغمۂ شور سلاسل بہار نو کے قدموں کی صدا ہے فروغ ماہ کیا اور کہکشاں کیا یہ میرے ماہ نو کی خاک پا ہے زمانے کی غلامی ...
ساون کی رت آ پہنچی کالے بادل چھائیں گے کلیاں رنگ میں بھیگیں گی پھولوں میں رس آئیں گے ہاں وہ ملنے آئیں گے رحم بھی کچھ فرمائیں گے حسن مگر چٹکی لے گا پھر قاتل بن جائیں گے نالے کھوئے دھندلکے میں شام ہوئی رات آ پہنچی پریم کے سونے مندر میں آخر وہ کب آئیں گے ہستی کی بد مستی کیا ہستی ...
ہم آنکھوں سے بھی عرض تمنا نہیں کرتے مبہم سا اشارہ بھی گوارا نہیں کرتے حاصل ہے جنہیں دولت صد آبلہ پائی وہ شکوۂ بے رنگئ صحرا نہیں کرتے صد شکر کہ دل میں ابھی اک قطرۂ خوں ہے ہم شکوۂ بے رنگئ دنیا نہیں کرتے مقصود عبادت ہے فقط دید نہیں ہے ہم پوجتے ہیں آپ کو دیکھا نہیں کرتے کافی ہے ...
ندیم درد محبت بڑا سہارا ہے جبھی تو یہ غم دوراں ہمیں گوارا ہے زمانہ کہتا ہے ہنگامۂ حیات جسے مرے ہجوم تمنا کا استعارہ ہے جو میرے دل کو ہے آتش کدہ بنائے ہوئے وہ سوز ان کی نظر کا ہی آشکارا ہے اکیلا چھوڑ کے طوفان کو گزر جائے یہ بے رخی مری کشتی کو کب گوارا ہے نہ جانے موج تبسم ہے یا ...
گیسو کو ترے رخ سے بہم ہونے نہ دیں گے ہم رات کو خورشید میں ضم ہونے نہ دیں گے یہ درد تو آرام دو عالم سے سوا ہے اے دوست ترے درد کو کم ہونے نہ دیں گے مفہوم بدل جائے گا تسلیم و رضا کا اب ہم سر تسلیم کو خم ہونے نہ دیں گے صرصر کو سکھائیں گے لطافت کا قرینہ پھولوں پہ ہواؤں کے ستم ہونے نہ ...
پھر رہ عشق وہی زاد سفر مانگے ہے وقت پھر قلب تپاں دیدۂ تر مانگے ہے سجدے مقبول نہیں بارگہہ ناز میں اب آستاں حسن کا سجدے نہیں سر مانگے ہے کس نے پہنچا دیا اس ہوش ربا وادی میں کہ جہاں وحشت دل زاد سفر مانگے ہے میری دنیا کے تقاضوں ہی پہ موقوف نہیں دین بھی ایک نیا فکر و نظر مانگے ...
صدیوں کی شب غم کو سحر ہم نے بنایا ذرات کو خورشید و قمر ہم نے بنایا تخلیق اندھیروں سے کیے ہم نے اجالے ہر شب کو اک ایوان سحر ہم نے بنایا برفاب کے سینے میں کیا ہم نے چراغاں ہر موجۂ دریا کو شرر ہم نے بنایا شبنم سے نہیں، رنگ دیا دل کے لہو سے ہر خار کو برگ گل تر ہم نے بنایا ہر خار کے ...
جو سمجھتے تھے مر گیا ہوں میں دیکھ لیں سب ہرا بھرا ہوں میں اپنے ڈر میں ہی مبتلا ہو کر اپنے اندر چھپا ہوا ہوں میں سن رہے ہیں سبھی توجہ سے تیری باتیں جو کر رہا ہوں میں اے حسیں شخص اب تری مرضی تیری آنکھوں پہ مر چکا ہوں میں میں بس اک کام سے ملا تھا اسے وہ سمجھتی ہے مبتلا ہوں ...