جو سمجھتے تھے مر گیا ہوں میں

جو سمجھتے تھے مر گیا ہوں میں
دیکھ لیں سب ہرا بھرا ہوں میں


اپنے ڈر میں ہی مبتلا ہو کر
اپنے اندر چھپا ہوا ہوں میں


سن رہے ہیں سبھی توجہ سے
تیری باتیں جو کر رہا ہوں میں


اے حسیں شخص اب تری مرضی
تیری آنکھوں پہ مر چکا ہوں میں


میں بس اک کام سے ملا تھا اسے
وہ سمجھتی ہے مبتلا ہوں میں


اپنا نقصان کرنے والا ہوں
آج کل خود سے ہی خفا ہوں میں


مجھ کو مصروفیت ہے دفتر کی
وہ سمجھتا ہے بے وفا ہوں میں


میں وہی ہوں وہی صغیرؔ احمد
تیرے دل میں کبھی رہا ہوں میں