شاعری

جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی

جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی اور آخر مرے رستے میں بھی آیا ہے وہی یہ الگ بات کہ ہم رات کو ہی دیکھ سکیں ورنہ دن کو بھی ستاروں کا تماشا ہے وہی اپنے موسم میں پسند آیا ہے کوئی چہرہ ورنہ موسم تو بدلتے رہے چہرہ ہے وہی ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملالؔ وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ...

مزید پڑھیے

یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے

یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے کہ دریا بس بہاؤ کے لیے ہے چرانے دوں کسی سورج کو کیسے یہ شبنم جو الاؤ کے لئے ہے تری تالی بھی کوئی فتنہ ہوگی تری تھپکی بھی تاؤ کے لیے ہے بے مرہم ہی رہو کہ یہ نمک تو ہمارے اپنے گھاؤ کے لئے ہے دھڑکنا بھی ضروری نئیں ہے اس کا نہ ہی یہ دل لگاؤ کے لیے ہے ابھی ...

مزید پڑھیے

دور پاس ہو کر بھی

دور پاس ہو کر بھی عام خاص ہو کر بھی پوجتے رہے پتھر رب شناس ہو کر بھی ہے قبول ہر آمد آ اداس ہو کر بھی گھونسلے نہیں بچتے اب بے ماس ہو کر بھی خشک ہو نہیں سکتے ہونٹ پیاس ہو کر بھی زخم چھو نہیں پائی رت کپاس ہو کر بھی بد گماں نہیں ساگرؔ بد حواس ہو کر بھی

مزید پڑھیے

درست ہے کہ مرا حال اب زبوں بھی نہیں

درست ہے کہ مرا حال اب زبوں بھی نہیں مقام سجدہ کہ یہ جام سرنگوں بھی نہیں نہیں کہ شورش بزم طرب فزوں بھی نہیں دلیل شورش جاں اک چراغ خوں بھی نہیں حدیث شوق ابھی مختصر ہے چپ رہیے ابھی بہار کا کیا غم ابھی جنوں بھی نہیں ابھی تو طاق حرم میں جلائیے شمعیں ابھی حریف صنم جذب اندروں بھی ...

مزید پڑھیے

بغور دیکھو تو زخموں کا اک چمن سا ہے

بغور دیکھو تو زخموں کا اک چمن سا ہے سکوت تشنہ تمناؤں کا کفن سا ہے کبھی کھل اٹھتے ہیں یادوں کے بھی کنول ورنہ بہار میں بھی یہ دل اک اداس بن سا ہے ابھر رہا ہے جو نغمہ بہار کے دل سے گداز و سوز کچھ اس میں ترے بدن سا ہے چمن سے دور چمن کے ہر اک خیال سے دور کھلا ہوا مری آنکھوں میں اک چمن ...

مزید پڑھیے

اوس کی تمنا میں جیسے باغ جلتا ہے

اوس کی تمنا میں جیسے باغ جلتا ہے تو نہ ہو تو سینے کا داغ داغ جلتا ہے چاند چل دیا چپ چاپ سو گئے ستارے بھی رات کی سیاہی میں دل کا داغ جلتا ہے موت اک کہانی ہے زیست جاودانی ہے اک چراغ بجھتا ہے اک چراغ جلتا ہے قتل گاہ سے لے کر قاتلوں کے دامن تک خون ناحق فرہاد کا سراغ جلتا ہے ساتھیوں ...

مزید پڑھیے

نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام (ردیف .. ے)

نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام ہم ایک سی تو کہانی سدا نہیں کہتے جدھر پہنچنا ہے آغاز بھی وہیں سے ہوا سفر سمجھتے ہیں اس کو سزا نہیں کہتے نیا شعور نئے استعارے لاتا ہے ازل سے لوگ خدا کو خدا نہیں کہتے جو گیت چنتے ہیں خاموشیوں کے صحرا سے وہ لب کشاؤں کو راز آشنا نہیں کہتے فضا ...

مزید پڑھیے

میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں

میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں بلند ہوتا فضا میں کہیں دھواں دیکھوں عبث ہے سوچنا لا انتہا کے بارے میں نگاہیں کیوں نہ جھکا لوں جو آسماں دیکھوں بہت قدیم ہے متروک تو نہیں لیکن ہوا جو ریت پہ لکھتی ہے وہ زباں دیکھوں ہے ایک عمر سے خواہش کہ دور جا کے کہیں میں خود کو اجنبی ...

مزید پڑھیے

جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے (ردیف .. ا)

جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے پھر دور دیکھتی ہوئی آنکھوں سے بھی ہو کیا ہاتھوں سے چھو کے پہلے اجالا کریں تلاش جب روشنی نہ ہو تو نگاہوں سے بھی ہو کیا حیرت زدہ سے رہتے ہیں اپنے مدار پر اس کے علاوہ چاند ستاروں سے بھی ہو کیا پاگل نہ ہو تو اور یہ پانی بھی کیا کرے وحشی نہ ہوں تو اور ...

مزید پڑھیے

کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں

کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں کتنی کہانیاں ہیں اسی داستان میں جب آج تک نہ بات مکمل ہوئی کوئی یہ لوگ بولنے لگے کیوں درمیان میں برسوں میں کٹ رہا ہے یہاں عرصۂ حیات صدیاں گزر رہی ہیں کہیں ایک آن میں اس دن کے بعد سوچنا محدود کر دیا ایسا خیال ایک دن آیا تھا دھیان میں ہونے کی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1083 سے 4657