یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے
یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے
کہ دریا بس بہاؤ کے لیے ہے
چرانے دوں کسی سورج کو کیسے
یہ شبنم جو الاؤ کے لئے ہے
تری تالی بھی کوئی فتنہ ہوگی
تری تھپکی بھی تاؤ کے لیے ہے
بے مرہم ہی رہو کہ یہ نمک تو
ہمارے اپنے گھاؤ کے لئے ہے
دھڑکنا بھی ضروری نئیں ہے اس کا
نہ ہی یہ دل لگاؤ کے لیے ہے
ابھی محفوظ ہیں ملاح سارے
بھنور فی الحال ناؤ کے لیے ہے
ہوا میں غرق ہے ہر موج ساگرؔ
کنارا بھی کٹاؤ کے لیے ہے