شاعری

جنوں کے جوش میں جس نے محبت کو ہنر جانا

جنوں کے جوش میں جس نے محبت کو ہنر جانا سبکدوشی سمجھتا ہے وہ اس سودا میں سر جانا کسی کا ناز تھا انداز تھا اب سر بسر جانا ادھر چڑھنا نگاہوں میں ادھر دل میں اتر جانا تصور خال و عارض کا تماشائے دوعالم ہے یہاں آنکھوں میں رہنا ہے وہاں دل میں اتر جانا جنون عشق میں کب تن بدن کا ہوش رہتا ...

مزید پڑھیے

برملا وہ بھی اگر ہم کو دغا دیتا ہے

برملا وہ بھی اگر ہم کو دغا دیتا ہے دل بیتاب اسے منہ پہ سنا دیتا ہے وہ ستم کیش جب آزار نیا دیتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ الفت کا صلہ دیتا ہے عشق کی آگ تو ہے یوں بھی فنا کا پیغام دل نا فہم عبث اس کو ہوا دیتا ہے آزما لیتا ہوں احباب کو گاہے گاہے ورنہ دینے کو تو ہر چیز خدا دیتا ہے اور کچھ ...

مزید پڑھیے

حوصلہ وجہ تپش ہائے دل و جاں نہ ہوا

حوصلہ وجہ تپش ہائے دل و جاں نہ ہوا شعلۂ شمع تری بزم میں رقصاں نہ ہوا حسن تھا مست ازل جام انا لیلیٰ سے تن کی عریانی سے مجنوں کوئی عریاں نہ ہوا لب منصور سے دی کس نے انا الحق کی صدا تو اگر پردۂ پندار میں پنہاں نہ ہوا ہم رہے چشم عنایت سے ہمیشہ محروم دل نشیں تیر نظر کا کوئی پیکاں نہ ...

مزید پڑھیے

نشاں علم و ادب کا اب بھی ہے اجڑے دیاروں میں

نشاں علم و ادب کا اب بھی ہے اجڑے دیاروں میں کہ سالمؔ اور مضطرؔ ہیں پرانی یاد گاروں میں غرض کیفیؔ و شاعرؔ سائلؔ و بیخودؔ حسنؔ شیداؔ علم ہیں عرصۂ علم و ادب کے شہسواروں میں نسیمؔ و برقؔ و رونقؔ غوثؔ و کیفیؔ عزمیؔ و ماہرؔ شررؔ اور زارؔ و معجزؔ نامور ہیں سحر کاروں میں مبیںؔ یکتاؔ ...

مزید پڑھیے

صمد کو سراپا صنم دیکھتے ہیں

صمد کو سراپا صنم دیکھتے ہیں مسمیٰ کو اسما میں ہم دیکھتے ہیں تجھے کیف مستی میں ہم دیکھتے ہیں ثلاثہ نظر کا عدم دیکھتے ہیں ترا حسن اوصاف ہم دیکھتے ہیں فنا میں بقا دم بدم دیکھتے ہیں جو ہیں خالی و پر سے سرمست نغمہ ہم آہنگیٔ کیف و کم دیکھتے ہیں نظر گاہ تیری ہے آئینہ دل تجھے حیرتی ہو ...

مزید پڑھیے

رسوائے عشق میں ترا شیدا کہیں جسے

رسوائے عشق میں ترا شیدا کہیں جسے عشاق میں مثال ہے رسوا کہیں جسے سینہ چمن ہے غنچۂ دل ہے شگفتہ دل تیری نگاہ ہے چمن آرا کہیں جسے غم پروریدہ ہے دل شوریدگان عشق فرقت کی ایک رات ہے دنیا کہیں جسے منسوب کفر دیر سے ایماں حرم سے ہے اک رہ گیا ہوں میں کہ تمہارا کہیں جسے ہم غیر معتبر سہی ...

مزید پڑھیے

کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا

کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا تو ہی تو تھا نہ تماشا نہ تماشائی تھا حسن بے واسطۂ ذوق خود آرائی تھا عشق بے واہمۂ لذت رسوائی تھا تیری ہستی میں نہ کثرت تھی نہ وحدت پیدا ہمہ و بے ہمہ و با ہمہ یکجائی تھا پردہ در کوئی نہ تھا اور نہ در پردہ کوئی غیرت عشق نہ تھی عالم تنہائی تھا لا ...

مزید پڑھیے

کبھی سوجھی نہ ترک خود نمائی کی ستاروں کو

کبھی سوجھی نہ ترک خود نمائی کی ستاروں کو خدا نے یہ سعادت بخش دی ہم خاکساروں کو بڑوں کی دوستی سے فیض کیا ہے خاکساروں کو مٹا دیتا ہے دریا جوش طوفاں میں کناروں کو خدا کے فضل سے محشر میں بھی وہ سرخ رو ہوں گے جناب شیخ کیا سمجھے ہوئے ہیں بادہ خواروں کو کسی کو عشق کے عقدے کا حل اب تک ...

مزید پڑھیے

دل بجھ گیا نگاہ خریدار دیکھ کر

دل بجھ گیا نگاہ خریدار دیکھ کر یعنی ہوس کی گرمئ بازار دیکھ کر دیکھا نگاہ قہر سے داور نے روز حشر پھر ہنس پڑا وہ شکل گنہ گار دیکھ کر نازک سے ہاتھ نرم کلائی ذرا سا دل ہنستا ہوں ان کے ہاتھوں میں تلوار دیکھ کر گردش پہ ہو گیا تھا بہت آسماں کو ناز چکر میں آ گیا تری رفتار دیکھ کر روکی ...

مزید پڑھیے

محروم اثر آہ بھی ہے اور دعا بھی

محروم اثر آہ بھی ہے اور دعا بھی سنتا نہیں ناکام محبت کی خدا بھی نعمت ہے مرے حق میں مرا درد محبت اٹھتا ہے جو پہلو میں تو آتا ہے مزا بھی اب ٹھوکریں در در کی نہ کھا اے دل ناداں ملتی ہے کہیں درد محبت کی دوا بھی تنہا تری شوخی ہی نہیں دل کی طلب گار کرتی ہے تقاضا یہی در پردہ حیا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1038 سے 4657