کبھی سوجھی نہ ترک خود نمائی کی ستاروں کو
کبھی سوجھی نہ ترک خود نمائی کی ستاروں کو
خدا نے یہ سعادت بخش دی ہم خاکساروں کو
بڑوں کی دوستی سے فیض کیا ہے خاکساروں کو
مٹا دیتا ہے دریا جوش طوفاں میں کناروں کو
خدا کے فضل سے محشر میں بھی وہ سرخ رو ہوں گے
جناب شیخ کیا سمجھے ہوئے ہیں بادہ خواروں کو
کسی کو عشق کے عقدے کا حل اب تک نہیں سوجھا
یہ وہ مشکل ہے دنیا میں جو پیش آئی ہزاروں کو
وہی نسبت ہے خوبان جہاں کو حسن سے تیرے
فلک پر جو مہ کامل سے ہوتی ہے ستاروں کو
ہے اس افسردگی پر بھی طبیعت میں وہ رنگینی
مری فصل خزاں پر رشک آتا ہے بہاروں کو
کسی کے خیر مقدم سے کبھی غافل نہیں ہوتے
قدم لینا سکھایا میں نے ہر صحرا کے خاروں کو
مقام اپنا بھی ساحرؔ امتیازی شان رکھتا ہے
ہماری پختہ گوئی کی خبر کیا خام کاروں کو