پھولوں نے جب بھی آنکھ کبھی اشک بار کی

پھولوں نے جب بھی آنکھ کبھی اشک بار کی
اٹھی ہیں سسکیاں کئی باد بہار کی


عہد وفا بھی وعدۂ فردا میں ڈھل گیا
اب رت گزر گئی ہے ترے اعتبار کی


گر حوصلہ نہیں یہ تو واپس پلٹ چلو
منزل بہت کڑی ہے وفا کے دیار کی


با اختیار ہو کے بھی بے اختیار ہیں
کیوں بات اس نے آج یہی بار بار کی


ہر حادثہ قبول کیا ہے یہ سوچ کر
ہیں حادثات نعمتیں پروردگار کی