پھر دل کو روز و شب کی وہی عید چاہئے

پھر دل کو روز و شب کی وہی عید چاہئے
ٹوٹے تعلقات کی تجدید چاہئے


خالی نہیں ہے ایک بھی بستر مکان میں
اک خواب دیکھنے کے لیے نیند چاہئے


ہم مانگتے رہے ترے رخسار و لب کی خیر
اے صاحب جمال تری دید چاہئے


ہم کو تو اک رفاقت آشفتہ سر بہت
ان کو ہجوم راہ کی تائید چاہئے


ہر آستیں کے خون نے قاتل بتا دیئے
شہر ستم کو ظلم کی تردید چاہئے


ہم پر زمیں کے راز تو سب منکشف ہوئے
اب آسماں کے ہونے کی تمہید چاہئے