پاکستان اور بھارت کمپیوٹر کے میدان میں، ایک تقابل

انڈیا نے پہلی جنریشن کا کمپیوٹر 1954 میں حاصل کیا تھا۔ 1956 میں جب دوسری جنریشن کا کمپیوٹر لانچ ہوا تو انڈیا کے گیارہ اداروں کے پاس کمپیوٹر تھے۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کانپور میں 1963 میں کمپیوٹر لیب کے ساتھ کمپیوٹر سائنس کی پہلی ڈگری کا آغاز کر دیا تھا۔ جس میں سرکاری اداروں کے اہلکار ہی تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔

 

ستر کی دھائی میں درجنوں پرائیوٹ ادارے کمپیوٹر سائنس کے مختلف ڈپلوما کورسز کرانا شروع ہو گئے تھے۔ آئی آئی ٹی کانپور نے عام طلبہ کے لیے پوسٹ گریجویشن ڈپلومہ کا آغاز 1970 میں کیا تھا۔ جبکہ بی ٹیک طرز کے کورسز کرانے والے درجنوں سرکاری ادارے بھی موجود تھے۔

1980 میں پونہ یونیورسٹی نے عام طلبہ کے لیے ماسٹر لیول پر کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کا آغاز کیا۔ 1981 میں دہلی یونیورسٹی نے ماسٹر ان کمپیوٹر سائنس اور ماسٹر ان کمپیوٹر ایپلیکیشنز کا آغاز کیا جس میں عام طلبہ و طالبات میرٹ پر داخلہ حاصل کر سکتے تھے۔ 1987 میں انڈیا میں پہلی بار اسکول لیول پر کمپیوٹر سائنس کا مضمون نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔ نوے کی دھائی میں بڑے پیمانے پر کمپیوٹر سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس دی گئیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ساتھ ہی کمپیوٹر سائنس میں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ ملنے پر آسان شرائط پر اسٹوڈنٹ لون کا حصول بھی عام بات ہے۔ جس کی وجہ سے بھارتی اسٹوڈنٹ دنیا کی اکثر یونیورسٹیوں میں کثرت سے ملتے ہیں۔ 

 

جبکہ دوسری طرف  پاکستان میں پہلا کمپیوٹر 1971 میں پی آئی اے لائی تھی۔ جب کمپیوٹر کی چوتھی جنریشن مارکیٹ میں آچکی تھی۔ 1980 تک پی آئی اے کے علاوہ صرف حبیب بنک کے پاس کمپیوٹر موجود تھا۔ 1976 میں قائد اعظم یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ قائم ہوا لیکن یونیورسٹی کے پاس پہلا کمپیوٹر 1981 میں آیا۔ 1980 کی دھائی میں ہمارے ہاں فیکس مشین کے لیے بھی 25ہزار کا لائسنس اسکیورٹی کلیرنس کے بعد ملتا تھا۔ بغیر اسکیورٹی کلیرنس اور لائسنس کمپیوٹر درآمد کرنے کی اجازت نوے کی دھائی میں جا کر ملی تو   پرائیویٹ سیکٹر میں بھی کمپیوٹر عام ہوا۔  1986 میں پہلی بار کراچی یونیورسٹی میں عام طلبہ کے لیے کمپیوٹر سائنس کی ماسٹر لیول کی ڈگری شروع ہوئی۔ کمپیوٹر کورسز کرانے والے پرائیویٹ اداروں کا چلن ستر کی دھائی کے وسط میں پڑ گیا تھا۔ لیکن انہیں ریگولیٹ کرنے کا کام آج تک نہیں ہو سکا۔ ابتدا میں کسی کے پاس کمپیوٹر ہوتا ہی نہیں تھا۔ نوے کے بعد کمپیوٹر تو آ گئے لیکن مارکیٹ ڈیمانڈ اور کوالٹی کورسز کا تصور تاحال ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے پچانوے فیصد کمپیوٹر کورسز کرانے والے ادارے وقت اور پیسے کا ضیاع ہی کراتے ہیں۔

 اسکالر شپ چند سال تک بہتر رہیں۔  اب اُن کی صورتحال بھی دگرگوں ہی ہے۔ پاکستان میں آج بھی اسٹوڈنٹ لون کا کوئی پروگرام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا کوئی ذہین طالب علم بیرون ملک یونیورسٹیز میں تعلیم کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ ڈالر کا ریٹ پونے دو سو سے تجاوز کرنے کے بعد تو یہ صرف ایلیٹ کلاس کی عیاشی رہ گئی ہے۔ ایک امریکن آئی ٹی کمپنی کے پاکستان نژاد سی ای او نے کچھ عرصہ قبل ایک پروگرام میں کہا تھا، پاکستان حکومت اگر صرف استعمال شدہ کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ پر ٹیکس ختم کر دے۔ نوجوانوں کو فری لانسنگ میں انکیوبیشن سروسز پر توجہ دے تو دو سال میں ملک کی 50 فیصد بے روزگاری ختم ہو سکتی ہے۔

خیر ہم تو وہ بدقسمت لوگ ہیں، جن کو پورے آزادکشمیر، گلگت بلتستان، سابق فاٹا اور نوے فیصد بلوچستان میں تھری جی انٹرنیٹ کی سروس بھی حاصل نہیں۔  انکیوبیشن سروسز تو ایک طرف یہاں ایف بی آر روز فری لانسنگ کرنے والوں پر چھاپے مارتا ہے۔

اب آپ خود فیصلہ کیجیے ، کہ سیاسی وجوہات کو ایک طرف رکھ دیا جائے ، تو بھی ٹویٹر ، فیس بک ، مائیکروسوفٹ وغیرہ سب  کے معاملے میں مالکان ہم پر بھارتیوں کو کیوں فوقیت نہ دیں؟

متعلقہ عنوانات