احمد ندیم قاسمی کا یوم پیدائش

احمد ندیم قاسمی اُن گنتی کے قلمکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے ایک ساتھ فکشن اور شاعری میں غیر معمولی فنکاری کا مظاہرہ کیا۔

انھوں نے اردو فکشن کے زرّیں عہد میں افسانہ نگاری کے اندر اپنی اہمیت کا لوہا منوایا۔ انسانی فطرت کے پیچ و خم کو اپنے گہرے مشاہدے کی روشنی میں اک جامع شکل دی۔اپنے افسانوں  میں احمد ندیم قاسمی نے دیہی زندگی اور اس کے مسائل کی جس طرح تصویر کشی کی ہے اس کے لئے کچھ ناقدین ان کو  اس میدان میں پریم چند کے بعد دوسرا بڑا فنکار مانتے ہیں۔ان کی شاعری میں انسان دوستی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی ادیب گر بھی تھے۔نثر میں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کی اور شاعری میں انھوں نے احمد فراز،امجد اسلام امجد پروین شاکر اور گلزارکی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی۔
احمد ندیم قاسمی پاکستان کے ضلع خوشاب میں 20 نومبر 1916 کو پیدا ہوے۔تین سال کی عمر میں والد پیر غلام نبی کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے نتیجہ میں بچپن  میں ان کو شدید مشکلات اور محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان 1930 میں شیخو پورہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے پاس کیا ۔اسی زمانہ میں انھوں نے شاعری شروع  کردی تھی۔مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ان کی پہلی  نظم روزنامہ سیاست میں شائع ہوئی تھی۔ 1934 سے 1937 تک ان کی غزلیں اور  نظمیں روزنامہ انقلاب اور روزنامہ زمیندار میں شائع ہوتی رہیں اور انھوں نے نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل کر لی۔1935 میں انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا اور تلاشِ معاش میں لاہور چلے گئے۔یہاں ان کی ملاقات اپنے وقت کے اہم ادیبوں اور شاعروں ،اختر شیرانی،صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم، منٹو اور کرشن چند سے ہوئی۔ 1935 سے انھوں نے کہانیاں لکھنی شروع  کر دی تھیں ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ  "چوپال" 1935 میں شائع ہوا جبکہ پہلا شعری مجموعہ "دھڑکن"1942 میں منظر عام پر آیا۔1939 میں انھوں نے محکمہ  آب کاری میں ملازمت کر لی 1940 میں انھوں نے ایک فلم "دھرم پتنی" کے مکالمے اور گانے لکھے لیکن یہ فلم کبھی مکمل نہیں ہوئی۔1942 میں انھوں نے آب کاری کے محکمہ کی ملازمت چھوڑ دی اور امتیاز علی تاج کے اشاعتی ادارے میں بچوں کے رسالہ "پھول" اور خواتین کے جریدہ "تہذیب نسواں" کی ادارت سنبھال لی۔ پھر وہ 1943 میں معروف ادبی رسالہ "ادب لطیف" کے مدیر مقرر کر دیے گئے۔اسی رسالہ میں منٹو کی کہانی "بو" شائع ہوئی تھی جس کے لئے منٹو پر فحش نگاری کا مقدمہ چلا تھا اور قاسمی بھی اس کی لپیٹ میں آئے تھے۔1946 میں انھون نے ادب لطیف کی ادارت چھوڑ کر ریڈیو پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت کر لی۔جہاں انھوں نے 1948 تک کام کیا۔ پھر وہ ادبی رسالہ "نقوش" کی ادارت کرنے لگے۔وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور انھیں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پاکستان شاخ کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا تھا۔
1963 میں انھوں نے اپنا رسالہ "فنون" نکالا۔ اور تا عمر اس کی ادارت کرتے رہے۔وہ روزنامہ امروز کے لئے فکاہیہ کالم ، "پنج دریا" بھی لکھتے تھے اور کچھ دن اس اخبار کے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے۔انھوں نے روزنامہ جنگ اور روزنامہ حریت کے لئے بھی کالم لکھے۔ 1950 اور 1970 کے عشروں میں وہ کئی بار گرفتار کئے گئے۔1958 میں انھیں سرکاری ادارے مجلس ترقی ادب کا سکریٹری جنرل مقرر کیا گیا۔1968 میں حکومت پاکستان نے انھیں "تمغہ  حسن کارکردگی" سے اور 1980 میں ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ " نشان امتیاز" سے نوازا۔2006 میں دمہ کے عارضہ سے ان کا انتقال ہوا۔
احمد ندیم قاسمی نے نظم و نثر میں تقریبا 50 کتابیں لکھیں۔ شاعری میں ان کے مجموعے "جلال و جمال،"،شعلہِ  گل"،اور کشتِ وفا ، جبکہ  کہانیوں کے مجموعوں میں  "چوپال"،سنّاٹا"،کپاس کے پھول"،بگولے"،آنچل" اور" گھر سے گھر تک" کو خاص مقبولیت ملی۔10 جولائی 2009ء کو پاکستان کے محکمہ  ڈاک نے ان کی تیسری برسی کے موقع  پر 5 روپے مالیت کا خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
احمد ندیم قاسمی ، اپنے اشتراکی نظریات اور ترقی پسندی کو ترک کر کے دین کی طرف آئے۔ اور دین سے والہانہ تعلق کا اظہار ان کے آخری دور کی تحریروں اور شاعری میں بہت واضع دیکھائی دیتا ہے۔ آپ کی ایک مشہور نعت میں عقیدت اور عقیدے کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
تہہ بہ تہہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
دستگیری مِری تنہائی میں تُو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے
مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا
میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا
میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا
ندّیاں بن کے پہاڑوں میں تو  سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا
شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا