کیا یہ گِرہیں ہمارے اپنے ہاتھوں کی باندھی ہوئی نہیں؟؟؟

1985 اور 1987 میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ پاکستان کے ون ڈے میچز سڑک کے کنارے سبزے پر بیٹھ کر دیکھے تھے۔

راولپنڈی کی مال روڈ اور پنڈی کلب گراونڈ کو چند فٹ کا فٹ پاتھ اور ڈھائی، تین فٹ کا جنگلہ علیحدہ کرتا تھا۔ 85 میں تو پانچویں میں پڑھتا تھا۔ مجھے خالو ساتھ لے کر گئے تھے۔ ہم نے سبزے پر بیٹھ کر میچ دیکھا تھا۔

87 میں ورلڈ کپ کے سلسلے کا میچ تھا۔ میں بڑا ہو گیا تھا۔ اب ساتویں جماعت میں پہنچ چکا تھا۔ چار دوستوں کے ساتھ جا کر میچ دیکھنے پہنچا تھا۔ بیٹھے تب بھی زمین پر ہی تھے۔ لیکن ہمارا ایک دوست بہت چلتا پرزا تھا۔ اُس نے ایک پولیس والے سے بات کی اور ہم نے نقد پانچ، پانچ روپے ادا کیے اور بقیہ میچ کُرسیوں پر بیٹھ کر دیکھا۔ پھر عرصے تک میچ اور اس سے منسلک ایڈونچرز کی کہانیاں سُناتے رہے۔

تب لوگ فٹ پاتھ پر کھڑے  ہو کر بھی میچ دیکھ لیتے تھے۔ مال روڈ سے گزرتی گاڑیاں آہستہ کر کے اسکور بھی پوچھ لیتے تھے۔

ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ 1965 میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم  نے اسی راولپنڈی کلب گراونڈ میں واحد انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔ کرکٹ کمرشل ہوئی تھی نہ جوئے کا رواج تھا۔ شاذ شاذ ہی لوگ میچ دیکھنے آتے تھے۔ اکثر کیوی کھلاڑی تماشائیوں میں آ جاتے، گپ شپ لگاتے، آٹو گراف دیتے رہتے تھے۔ خود اُنہوں نے بھی سگریٹ کی ڈبیہ پر آٹو گراف لیا تھا۔

ہائے کیا دن تھے۔ نوے کی دھائی کے آخر بلکہ اکیسویں صدی کے  ابتدائی سالوں میں بھی"ہلال روڈ" عام ٹریفک کے لیے بند نہیں تھی۔ آئی ایس پی آر میں شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں۔

سویلینز کی گاڑیاں بھی "جی ایچ کیو" کی عمارت کے سامنے سے گزرا کرتی تھیں۔ چھٹی کے وقت جی ایچ کیو سے سائیکلوں کا ریلہ نکلتا اور مال روڈ اور 22 نمبر چُنگی پر سیلاب آ جاتا۔ نوجوان فوجی آفیسر سوزوکیوں، ویگنوں اور اومنی بسوں میں بھاگ کر سوار ہوا کرتے تھے۔ کرنل رینکس تک کے سنئیرز آفیسرز نے اکثر ٹانگے لگوائے ہوتے تھے۔ "ڈی ایچ اے" اور "عسکری"  وغیرہ کا  نشان تک نہیں تھا۔ اکثر فوجی دفاتر بیرک نما عمارتوں میں قائم تھے۔

شہروں میں غیر ملکی ،پنجابی محاورے کے مطابق گمشدہ گائے کی طرح گھومتے پھرتے نظر آتے۔ راولپنڈی کے صدر، راجہ بازار اور ذیلی گلیوں میں گوروں کے غول ریڑھیوں پر کھاتے اور خریداری کرتےدکھائی دیتے۔ ہم نے کالج جانا شروع کیا تو بھی اکثر کسی "گورے" کی کنڈیکٹر سے کرایے پر بحث تفریح کا سامان بنی رہتی تھی۔ گورا انگریزی اور کنڈیکٹر پوٹھوہاری میں مدعا بیان کر رہے ہوتے۔

ایک بار اسلام آباد سے لاہور جانے کے لیے کوسٹر میں بیٹھے تو معلوم ہوا کہ ہم دو دوستوں کے علاوہ پوری کوسٹر کے مسافر غیر ملکی تھے۔ وہ پانچ چھے گھنٹے کے سفر کے دوران انگریزی بولنے کی جھجک میں کافی افاقہ ہوا تھا۔ گرمیوں کے سیزن میں گلگت بلتستان کی طرف جانے والی ناٹکو اور مشہ بروم کی شاید ہی کوئی بس ہوتی ہو جس میں کوئی گورا سوار نہ ہو۔

 خیر اب وقت بدل چکا ہے۔ اسلام آباد کی جناح سُپر مارکیٹ میں بھی کوئی گورا آئے تو اُس کے گرد سول کپڑوں اور باوردی اہلکاروں نے باقاعدہ گھیرا ڈالا ہوتا ہے۔ تین مہینے پہلے پولیس اہلکاروں سے اس بات پر تلخی ہو گئی تھی کہ پارک کے نزدیکی بینچ پر "گوروں کا ایک جوڑا" آ کر بیٹھا تو داروغہ صاحب ہمارے پاس پہنچ گئے کہ اس بینچ سے اٹھ کر دور والے پر چلے جائیں۔

کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ سازشیں اور اُن کی کہانیاں اپنی جگہ۔ لیکن ہمیں اپنی اداوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ ثابت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کہ ہم بالکل ٹھیک اور ساری دنیا ہماری دشمن ہے۔