پہلی نگاہ میں ہی وہ دل میں اتر گیا

پہلی نگاہ میں ہی وہ دل میں اتر گیا
پھر اس کے بعد دل میں جو کچھ تھا بکھر گیا


معلوم تو کرو وہ پری زاد کون ہے
آئینہ جس کو دیکھ کے اتنا نکھر گیا


وہ شخص جس پہ میں نے لٹا دی ہے زندگی
مہمان گھڑی بھر کا تھا جانے کدھر گیا


پھر اس کے بعد کیا ہوا کیا کیا نہیں ہوا
بس تم کسی کے ہو گئے اور میں بکھر گیا


یہ بھی نہ دسترس میں تھا وہ بھی نہ تھا مرا
قابو سے دل کبھی تو کبھی پھر جگر گیا


ظالم ہے تازہ دم میں پشیمان ہوں بہت
میرے لہو کے قطروں سے ظالم نکھر گیا


فیصلؔ ہے خوف خود مجھے ایسے پتا چلا
دیکھا جو آئینہ تو میں خود سے ہی ڈر گیا