پہلے بے سایہ کیا تھا باد صرصر نے مجھے

پہلے بے سایہ کیا تھا باد صرصر نے مجھے
اب چلیں سرکش ہوائیں بے زمیں کرنے مجھے


میری آنکھوں پر سواد شام کا پرتو نہیں
اک نظر کی دید بخشی ہے گل تر نے مجھے


آئنہ تمثال اس جانب سے گزرا تھا کبھی
توڑ ڈالا تھا اسی جا ایک پتھر نے مجھے


منحرف خواب تمنا سے مری آنکھیں ہوئیں
مطمئن ہوں جو دیا میرے مقدر نے مجھے


رخ نہ کر پایا کبھی شہر قناعت کی طرف
باندھ کر رکھا ہوس کے لقمۂ تر نے مجھے