چھڑی ہے جنگ مسلسل مری انا کے ساتھ
چھڑی ہے جنگ مسلسل مری انا کے ساتھ
میں اپنی وضع پہ قائم رہوں بقا کے ساتھ
مری جلو میں اندھیرا قیام کرتا ہے
کہ میرا رابطہ اچھا نہیں دیا کے ساتھ
کسی نے اپنی سماعت کا در نہیں کھولا
برا سلوک ہوا ہے مری صدا کے ساتھ
بچا کے کار غلط سے نہ رکھ سکا خود کو
وفائیں کرتا رہا میں بھی بے وفا کے ساتھ
یہ اب کھلا وہ بھرم تھا مری نگاہوں کا
کہ چل پڑا میں کسی غیر آشنا کے ساتھ