اندھیرا چھٹ رہا ہے روشنی ہونے لگی ہے

اندھیرا چھٹ رہا ہے روشنی ہونے لگی ہے
اٹھو دستک نمود صبح کی ہونے لگی ہے


ضرورت جیسی بھی ہو لازمی ہونے لگی ہے
بہت مصروف میری زندگی ہونے لگی ہے


مرے غم میں اضافہ رفتہ رفتہ ہو رہا ہے
کہیں تو منتقل میری خوشی ہونے لگی ہے


مرے اپنے پرائے کی طرح ہونے لگے ہیں
مری وابستگی غیروں سے ہی ہونے لگی ہے


کھلے دن سے کھلی آنکھوں سے دنیا دیکھ آیا
نفی خود میری ہی اثبات کی ہونے لگی ہے


کوئی بھی جستجو و شوق کوئی بھی تمنا
نہ ہوتی تھی کبھی تو کیوں ابھی ہونے لگی ہے