پڑے جو کام تو دل سے کسی کا ساتھ نہ دے

پڑے جو کام تو دل سے کسی کا ساتھ نہ دے
وہ آدمی نہیں جو آدمی کا ساتھ نہ دے


چراغ وہ ہے اندھیروں کو جو کرے روشن
وہ کیا چراغ ہے جو روشنی کا ساتھ نہ دے


چمن میں اب تو یہ حالت ہے ہم نشینوں کی
کہ جیسے کوئی قفس میں کسی کا ساتھ نہ دے


اندھیرا چھا نہیں سکتا کبھی اجالے پر
تمہاری زلف اگر تیرگی کا ساتھ نہ دے


خدا کرے او مرے دل کو توڑنے والے
ترا شباب تری نازکی کا ساتھ نہ دے


غم زمانہ سے ٹکرا سکے یہ نا ممکن
اگر شراب مری زندگی کا ساتھ نہ دے


اگر کہیں انہیں بے پردہ دیکھ لے انورؔ
یقیں ہے چاند کبھی چاندنی کا ساتھ نہ دے