پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہوگا

پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہوگا
کچھ تو نے کیا ہوگا کچھ تجھ سے ہوا ہوگا


جینے کا مزہ جب ہے جینے کا ہو کچھ حاصل
یوں لاکھ جئے کوئی تو جینے سے کیا ہوگا


پرسش کی نہیں حاجت پرسش کی ضرورت کیا
معلوم ہے سب تجھ کو جو کچھ بھی ہوا ہوگا


جب تک ہے خودی دل میں ہوگی نہ پذیرائی
بیکار ہیں یہ سجدے ان سجدوں سے کیا ہوگا


جیسی بھی گزرتی ہے اے رازؔ گزرتی ہے
آغاز محبت ہے انجام میں کیا ہوگا