پاس وحشت ہے تو یاد رخ لیلیٰ بھی نہ کر
پاس وحشت ہے تو یاد رخ لیلیٰ بھی نہ کر
عشق کو قیدیٔ زنجیر تمنا بھی نہ کر
موج خوددار اگر ہے تو سوئے غیر نہ دیکھ
کسی طوفاں کسی ساحل کا بھروسا بھی نہ کر
زینت دہر اک آرائش باطل ہی سہی
نگہ شوق کو محروم تماشا بھی نہ کر
شرک ہے شرک یہ اے واعظ آشفتہ خیال
غم عقبیٰ کو شریک غم دنیا بھی نہ کر
کیف انگیز نہیں بادۂ امروز نہ ہو
دل کو حسرت کش پیمانۂ فردا بھی نہ کر
محرم راز محبت ہے اگر دل تیرا
تو خدا کے لیے اس راز کو رسوا بھی نہ کر
حیرت شوق ہی بن جائے نہ غماز روشؔ
تو اس انداز سے ناداں اسے دیکھا بھی نہ کر