پاس آئی ہوئی منزل کے اجالے دیکھے
پاس آئی ہوئی منزل کے اجالے دیکھے
جب بھی لوگوں نے مرے پاؤں کے چھالے دیکھے
کتنے خوددار تھے کٹ کر نہ گرے قدموں پر
جتنے سر آپ نے نیزے سے اچھالے دیکھے
مصلحت نام کو چھو کر نہیں گزری مجھ سے
میرے ہونٹوں پہ کبھی آپ نے نالے دیکھے
چاند کو دیکھا کبھی ہم نے ہوائیں چھو لیں
کس طرح دل کے یہ ارمان نکالے دیکھے
خواب سے جاگ کے شائستہؔ جب آنکھیں کھولیں
کتنے الجھے ہوئے حالات کے جالے دیکھے