فکر کے جب بھی پاؤں اٹھیں گے تیرے گھر تک جائیں گے
فکر کے جب بھی پاؤں اٹھیں گے تیرے گھر تک جائیں گے
دنیا بھر کو دیکھنے والے میری نظر تک جائیں گے
ہم نے جی کر دیکھ لیا ہے یہ دھرتی تو تنگ رہی
دوستو اب یہ سوچ رہے ہیں شمس و قمر تک جائیں گے
تبدیلی اس نظم کہن کی آج نہیں تو کل ہوگی
جن رستے یہ راز ملیں گے ایسی ڈگر تک جائیں گے
بیٹھے بیٹھے سوچ رہے ہو ہاتھ نہ کچھ لگنے والا
جن کو پھلوں کی خواہش ہوگی وہ ہی شجر تک جائیں گے
شعر و سخن کی محفل میں سب منہ لٹکائے بیٹھے ہیں
ہم تو اپنے شعر سنانے اہل نظر تک جائیں گے
سب نے ایسا سوچ لیا منزل آساں ہو جائے گی
شائستہؔ جو راہ چلے اس راہ گزر تک جائیں گے