کچھ اس طرح سے زمانہ بدلتا رہتا ہے

کچھ اس طرح سے زمانہ بدلتا رہتا ہے
دل و دماغ میں سناٹا چلتا رہتا ہے


بدلتے وقت کا احساس ہوشمندی ہے
ہماری عمر کا سورج بھی ڈھلتا رہتا ہے


کوئی ضروری نہیں دل ہمیشہ سخت رہے
وفا کی آنچ سے وہ بھی پگھلتا رہتا ہے


اگر ہے صاحب ایماں گناہ کرنے پر
خدا کے خوف سے اکثر دہلتا رہتا ہے


جسے تمیز ہے شائستہؔ نیک و بد کیا ہے
وہ اپنا ہاتھ ندامت سے ملتا رہتا ہے