پار اس دکھ درد کے دریا کو کر جائیں گے ہم
پار اس دکھ درد کے دریا کو کر جائیں گے ہم
ہاں مگر اس پل تری نظروں میں مر جائیں گے ہم
ہائے رے اس وصل کا یاد آنا جب کہتے تھے وہ
چھوڑیئے گا ہاتھ اب جلدی سے گھر جائیں گے ہم
دوڑنا زینے پہ وہ ایڑی میں موچ آنا تری
اب تو ان یادوں کے بل پر ہی گزر جائیں گے ہم
اک تجھے کھونے کا غم اور زندگی کے سو ستم
کوئی تو سوچے کہ ایسے میں بکھر جائیں گے ہم
جیسے بارش میں اتر جاتا ہے دیواروں کا رنگ
ویسے کب سوچا ترے دل سے اتر جائیں گے ہم
پوچھتے ہیں راہ چلتے ہر مسافر سے کہ اب
اس کے کوچے جائیں گے بھی تو کدھر جائیں گے ہم
ہم کو روداد غم الفت کے موسم یاد ہیں
یعنی اپنی شاعری خوشبو سے بھر جائیں گے ہم