نگاہ مست سے اوجھل ہیں منزلیں دل کی

نگاہ مست سے اوجھل ہیں منزلیں دل کی
ہیں اپنی آخری سانسوں پہ چاہتیں دل کی


بہائے جاتا ہے دریائے عشق آخر تک
بھلے ہی لاکھ سنبھالے ہوں دھڑکنیں دل کی


ذرا سی دیر بھی بیٹھا نہیں گیا نزدیک
ہوا سی ہو گئیں آوارہ راحتیں دل کی


جو خود کو قابل کار جہاں بھی رکھنا تھا
تو ہم بھی خاک ہی کر ڈالیں خواہشیں دل کی


اسی میں چین و سکوں کیوں ہے جس نے چھینا ہے
سمجھ سے ہی رہیں باہر ہیں سازشیں دل کی


پکڑ رہی ہو تھکن جب وجود کے بازو
اٹھائے کوئی بھلا کیسے وحشتیں دل کی


یہ کس گلی سے سمنؔ عشق اپنا گزرا ہے
لپٹتی ہی گئیں دامن سے الجھنیں دل کی