نذر غالبؔ
کیف جاں نور بصر یاد آیا
عرصۂ حرف و ہنر یاد آیا
دشت امکان کی پہنائی میں
خاک بر سر تھے کہ گھر یاد آیا
لٹتے لٹتے بھی دل محزوں کو
درد کا رخت سفر یاد آیا
جب گنوا آئے متاع ہستی
تب ہمیں جاں کا ضرر یاد آیا
بزم جاناں ہی سہی بزم خیال
دل کا سناٹا مگر یاد آیا
شب مہجوری میں ہنگام نزاع
مطلع نور سحر یاد آیا
پھر بجھا دیپ کوئی پلکوں پر
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
کون مانگے ہے شبستان وصال
بس اک آشفتہ نظر یاد آیا
پھر ہوا دل میں خیالوں کا ہجوم
پھر ہمیں سلک گہر یاد آیا