نظم

بہت دنوں سے
وہ میری توہین کے بہانے
ڈھونڈ رہا تھا
بے لحاظ بے مروت
دوسروں کی ذلت
اس کے جینے کا جواز
ہر تعلق کے تسمے کھول کر
پھینک دینا
اس کا مزاج
اس کی آواز کی یخ ہوا سے
جانے کون کون زخمی ہے
میری خاموشی
اس کی آواز کو جتنی بار چھوتی
اس کا جلاپا اور بڑھ جاتا
پھر نہ کسی سفر کی دھوپ
نہ تھکن مسافتوں کی کام آتی
کل وہ کچھ زیادہ ہی ہانپ رہا تھا
اس کی یخ آواز کے نشتر
میری خاموشی پر لگے
وہ ٹوٹ گئی
دفعتاً
میری انگلیاں
بلی کے پنجوں جیسی ہو گئیں
یاد نہیں
میں اس پر جھپٹی یا خود پر
ابھی میں نے آئینہ نہیں دیکھا