نظم

اکثر سوچتی ہوں
وہ
''میں'' کے وجود کی کھوکھلاہٹ تھی
جس میں
''تو'' کی آواز گونجتی تھی
میں اور تو
گم گشتہ ذات
پر
بات ''میں'' اور ''تو'' کی کہاں
میری اور تیری ہے
میں
جو میری کچھ نہیں لگتی
اکثر سوچتی ہوں
شاید
تمہارا ''تو'' بھی
تمہارا نہ تھا
نہ جانے کتنے سجدوں کی تابانی
چوکھٹ چوکھٹ
بانٹ چکا تھا
اور خاموشی کی چادر
ڈھکے
مجھ کو
تک رہا تھا
میں اکثر سوچتی ہوں
تو وہ نہ تھا
جسے میں نے سوچا تھا
تو نے یا پھر شاید تقدیر نے
تجھے سر تا پا ڈھک رکھا تھا