نہیں شعور نظر کسی میں
نہیں شعور نظر کسی میں
ہزاروں غم ہیں مری ہنسی میں
نہیں ہے معیار کوئی باقی
نہ دشمنی میں نہ دوستی میں
نہ چھیڑ ان کو اے جذبۂ دل
وہ رو پڑیں گے ہنسی ہنسی میں
پیمبر تیرگی بھی اک دن
ضرور آئیں گے روشنی میں
ذرا کوئی راہبر سے کہہ دے
کہ راز منزل ہے گمرہی میں
مذاق محفل گرا ہوا ہے
نہ ٹوٹے دل کوئی دل لگی میں
بجھی ہوئی شمع ساتھ لے کر
بھٹک رہے ہیں وہ تیرگی میں
خدا کا عرفاں یہی ہے اشرفؔ
کہ لطف آ جائے بندگی میں