نظم
پرندے لاکھ آسودہ رہیں
سونے کے پنجروں میں
مگر آزادیٔ فردا کی خواہش
جاگتی رہتی ہے سینوں میں
نگاہیں مضطرب
کہتی ہیں
کوئی آئے
شعور جاں فزا سے
تیلیاں پنجروں کی توڑے
یا ذرا دروازہ کھولے
اڑائے پر شکستہ کو
وہ چمکتی روشنی
شاید کوئی آیا
نہیں کوئی نہیں آیا
نہ آئے گا
پرندے خود ہی اپنا زور بازو آزمائیں گے