ضرور چشم تماشا چمن پہ ناز کرے

ضرور چشم تماشا چمن پہ ناز کرے
مگر بہار و خزاں میں تو امتیاز کرے


مری حیات کا مقصد ہے صرف لذت غم
کوئی یہ سلسلۂ غم ذرا دراز کرے


جنوں کے دور میں ہو جس کو شوق گل چینی
چمن میں کیسے وہ کانٹوں سے احتراز کرے


یہی ہے خالق جذبات کا کرم شاید
تمہیں خوشی سے ہمیں غم سے سرفراز کرے


نہ کیجئے کسی گستاخیٔ جنوں کا ملال
کسے ہے ہوش کہ فرق نیاز و ناز کرے


رہ وفا میں تمنائے التفات ہے کفر
جو جی میں آئے وہ حسن کرشمہ ساز کرے


جبین شوق تو رکھ دی ہے میں نے در پہ ترے
یہ تیرا کام ہے باب کرم بھی باز کرے


سنا ہے راز حقیقت اسی حجاب میں ہے
جو دیدہ ور ہو وہی عظمت مجاز کرے


وہ کوئی دل نہیں پتھر ہے اصل میں اشرفؔ
جو آدمی کو محبت سے بے نیاز کرے