حق نہیں مجھ کو شادمانی کا

حق نہیں مجھ کو شادمانی کا
شکریہ غم کی مہربانی کا


آپ کے اور ہمارے آنسو میں
فرق ہے آگ اور پانی کا


ہے محبت کا نام عمر ابد
ذکر ہی کیا حیات فانی کا


خود مرے دل نے میری آنکھوں کو
فرض سونپا ہے خوں فشانی کا


اہل دل کی کہانیاں توبہ
ایک عنواں ہے ہر کہانی کا


کیوں نہ سرگوشیاں ہوں محفل میں
فیض ہے میری بے زبانی کا


تیرے غم سے سوا یہ غم ہے ہمیں
جانے کیا ہو تری نشانی کا


شعر روداد دل ہے نام نہیں
صرف الفاظ کی روانی کا


کارواں کے غبار میں اشرفؔ
چھپ گیا رنگ زندگانی کا