ندی سے کوئی بھی پیاسا نہ جائے

ندی سے کوئی بھی پیاسا نہ جائے
کناروں سے اگر الجھا نہ جائے


یہ مانا بن چکا ہے پل ندی پر
مگر ملاح سے الجھا نہ جائے


سمندر کی بس اتنی آرزو ہے
ندی کا راستہ روکا نہ جائے


چرا کر لے گیا ہے کوئی مجھ کو
مرے اندر مجھے ڈھونڈھا نہ جائے


کچھ اتنے غور سے دیکھو نہ اس کو
کہ پھر خود کی طرف دیکھا نہ جائے


سمجھ لینا تمہارا دکھ بڑا ہے
کسی دکھ میں اگر رویا نہ جائے


بگڑ سکتا ہے کشتی کا توازن
کنارے کی طرف دیکھا نہ جائے