ناخدا کی مشکلیں آسان کر جاتا ہوں میں

ناخدا کی مشکلیں آسان کر جاتا ہوں میں
اپنی کشتی آپ جب طوفاں سے ٹکراتا ہوں میں


ان کا ہر اک قول اکثر بے عمل پاتا ہوں میں
ناصحوں کی بات کو خاطر میں کب لاتا ہوں میں


کس قدر ہے نارسا میرا مقدر دیکھیے
عین منزل کے قریب آ کر بھٹک جاتا ہوں میں


ہر بلا ناگہاں میرا مقدر بن گئی
ہر بلا سے خود کو اب محفوظ تر پاتا ہوں میں


جب محبت جان تھی ایمان تھی وہ دن گئے
اب محبت کے تصور سے بھی گھبراتا ہوں میں


بے ترے جو کچھ گزرتی ہے مرے دل پر نہ پوچھ
زندگی کو موت کے نزدیک تر پاتا ہوں میں


میں تری باتوں میں آ کر بے سر و ساماں ہوا
اب مگر اے دل تری باتوں میں کب آتا ہوں میں


مدتیں گزریں کہ دل نے کی تھی ان کی آرزو
آج تک دشت طلب میں ٹھوکریں کھاتا ہوں میں


زندگی میں رنگ و بو نے کس قدر دھوکے دئے
اس پہ بھی آسی فریب رنگ و بو کھاتا ہوں میں