ناکامیوں پہ سر بہ گریباں نہیں ہوں میں

ناکامیوں پہ سر بہ گریباں نہیں ہوں میں
جو اٹھ کے بیٹھ جائے وہ طوفاں نہیں ہوں میں


کیا خاک دل کی آگ جو شعلہ نہ دے سکے
جذبات مشتعل سے پشیماں نہیں ہوں میں


ہو مجھ سے آدمی کی خوشامد خدا کی شان
جس کا ہو یہ شعار وہ انساں نہیں ہوں میں


میری شگفتگی کا بھی آئے گا ایک وقت
مہکے نہ جو کبھی وہ گلستاں نہیں ہوں میں


کٹ کٹ کے گر رہا ہے منورؔ جگر مرا
بزم سخن میں آج غزل خواں نہیں ہوں میں