نہ وہ دل دادۂ لطف و کرم ہے
نہ وہ دل دادۂ لطف و کرم ہے
نہ اس میں خواہش جاہ و حشم ہے
معطل ہو گیا ہے اک فریضہ
مقفل چند ہفتوں سے حرم ہے
پیالہ زہر کا ہے زندگی یہ
مگر لگتا ہے جیسے جام جم ہے
بہت لگتا ہے اک چھوٹا سا غم بھی
خوشی جتنی ملے اتنی ہی کم ہے
میں کیسے دور کر دوں اس کو خود سے
یہ سایا ہی تو میرا ہم قدم ہے
جو خود محتاج ہے کیا اس سے مانگوں
نہ ہوگا رب جو پتھر کا صنم ہے
نکالو اس کو اپنے دل سے انجمؔ
کہ یہ ارمان ہی باباۓ غم ہے