نہ اس کا باطن و ظاہر بدلنے والا ہے

نہ اس کا باطن و ظاہر بدلنے والا ہے
مفاد دیکھ کے محور بدلنے والا ہے


عدالتوں کے رویوں پہ مت قیافہ کر
یہ کون کہتا ہے منظر بدلنے والا ہے


فلک پہ چاند ستارے ہیں سانس روکے ہوئے
لباس آج وہ پیکر بدلنے والا ہے


جو کہہ دیا ہے بس اس پر ہنوز قائم ہیں
نہ وہ نہ میں نہ سمندر بدلنے والا ہے


مجھ ایک فرد میں طاقت ہے سارے لشکر کی
سپہ سلار تو لشکر بدلنے والا ہے


دھیان دو نہ یہ ہے چال میرے دشمن کی
غلط یہ سوچ کہ صفدرؔ بدلنے والا ہے