نہ رسوا اس طرح کرتے بلا کر مجھ کو محفل میں

نہ رسوا اس طرح کرتے بلا کر مجھ کو محفل میں
اگر پاس وفا ہوتا ذرا بھی آپ کے دل میں


نہ اب وہ ولولے باقی نہ اب وہ حوصلے دل میں
مرا ہونا نہ ہونا ایک ہے دنیا کی محفل میں


حوادث سے ہے نسبت خاص ایسے زندگانی کو
ہے قائم ربط باہم جس طرح دریا و ساحل میں


بڑی مدت سے یہ عالم نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں
بڑی مدت سے میری زندگی ہے سخت مشکل میں


ابھی کوئی بلا ٹوٹی ابھی کوئی ستم ٹوٹا
رہا جب تک میں زندہ اک یہی خدشہ رہا دل میں


مری ہستی کی کشتی کا ٹھکانا ہی نہیں کوئی
ابھی آغوش طوفاں میں ابھی آغوش ساحل میں


تمہیں سوچو مرا جینا کوئی جینے میں جینا ہے
نہ کوئی آرزو دل میں نہ کوئی مدعا دل میں


سفینہ زندگی کا نذر طوفاں کر دیا عاصیؔ
تجھے آخر یہ کیا سوجھی یہ کیا آئی ترے دل میں