نہ منزل نہ راہ عدم دیکھتے ہیں

نہ منزل نہ راہ عدم دیکھتے ہیں
مگر جانے والوں کو ہم دیکھتے ہیں


عجب ناز سے ہاتھ سینے پہ رکھ کر
وہ بیمار ہجراں کا دم دیکھتے ہیں


جواب خط شوق کی یہ خلش ہے
وہ ناخن پہ زور قلم دیکھتے ہیں


محبت کے آنسو بھرے چشم تر میں
حبابوں میں جوئے کرم دیکھتے ہیں


کہاں ہو حیاتؔ اگ گزرتی ہے کیسی
ادھر آتے جاتے بھی کم دیکھتے ہیں