نہ اہل دل سے نہ اہل نظر سے ملتا ہے

نہ اہل دل سے نہ اہل نظر سے ملتا ہے
شعور ذات فقط اپنے در سے ملتا ہے


تمہارے فیض سے کھلتے ہیں زندگی میں گلاب
جنوں کو رنگ تمہاری نظر سے ملتا ہے


بکھر رہی ہیں ضیائیں نکھر رہی ہے فضا
تمہارا حسن جمال سحر سے ملتا ہے


فروغ شوق ہے یا ارتقائے جذب دروں
پتا اب اپنا تمہاری خبر سے ملتا ہے


وہی ہے حاصل عشرت وہی وقار حیات
سکون دل جو غم معتبر سے ملتا ہے


کہاں پھر اذن سفر مل گئی اگر منزل
سفر کا ذوق فقط رہ گزر سے ملتا ہے


وہ کم سخن ہیں مگر ہم سے بے نیاز نہیں
سراغ دل سخن مختصر سے ملتا ہے


نثار اس پہ دو عالم کے میکدے پرویزؔ
وہ ایک جام جو ان کی نظر سے ملتا ہے