نہ آئی جس کی سحر ایک رات ایسی بھی
نہ آئی جس کی سحر ایک رات ایسی بھی
گزار آئے مگر ایک رات ایسی بھی
ادھر گزرتی ہیں جیسے عذاب میں راتیں
گزرتی کاش ادھر ایک رات ایسی بھی
بجھا سکوں میں دیوں کو خوشی خوشی جس میں
تو میری نذر تو کر ایک رات ایسی بھی
جدا ہے دشت کی شب تیرے شہر کی شب سے
لے چل سمیٹ کے گھر ایک رات ایسی بھی
میں جانتا ہوں نہ نکلے گا رات میں سورج
میں چاہتا ہوں مگر ایک رات ایسی بھی
وہ جس میں آنکھ ہی خوابوں سے رشک کرتی تھی
ضیاؔ نے کی ہے بسر ایک رات ایسی بھی