لہو گرے تو کریں واہ کانچ کے ٹکڑے
لہو گرے تو کریں واہ کانچ کے ٹکڑے
ہمارے پاؤں کے ہم راہ کانچ کے ٹکڑے
چلیں جو ایک پہ تو دوسرا جھکا لے سر
ہمارے درد سے آگاہ کانچ کے ٹکڑے
نکل رہے ہیں سبھی بچ کے پر اٹھاتے نہیں
پڑے ہوئے ہیں سر راہ کانچ کے ٹکڑے
نہیں نہیں اسے ان کا ستم نہیں کہیے
ہمارے زخم کی ہیں چاہ کانچ کے ٹکڑے
سمجھ گیا وہ سبب میرے لڑکھڑانے کا
کہ میرے ہونٹوں پہ تھا آہ کانچ کے ٹکڑے
کبھی جگر میں کبھی آنکھ میں کبھی دل میں
ضیاؔ نے رکھے ہر اک گاہ کانچ کے ٹکڑے