غریب آنکھ کے گھر میں پلے بڑھے ہیں خواب

غریب آنکھ کے گھر میں پلے بڑھے ہیں خواب
تبھی تو نیند کی قیمت سمجھ رہے ہیں خواب


امید فصل نہ کیجے بغیر پانی کے
بھری بھری ہیں جو آنکھیں ہرے بھرے ہیں خواب


حقیقتوں میں تو کس کس سے روبرو ملتا
سہولتیں تجھے ہوں اس لیے بنے ہیں خواب


تمہارے ہجر نے تاثیر خوب پائی ہے
اڑی ہیں نیند ہماری اڑے ہوئے ہیں خواب


اداسیوں کے سبب ہی تو خواب دیکھے تھے
اداسیوں کا سبب ہی تو بن گئے ہیں خواب


ادھوری نیند میں کس نے جگا دیا ہم کو
خفا ہوئے ہیں بہت منہ بنا رہے ہیں خواب