مشاعرے کا لوٹنا
1975ء کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں ایک نوجوان شاعرہ نے اپنے حسن اور ترنم کے طفیل شرکت کاموقع حاصل کرلیا تھا۔ جب موصوفہ نے غزل پڑھی تو سارے سامعین جھوم اٹھے ۔ غزل بھی اچھی تھی۔ لیکن نادانستگی میں اس شاعر ہ سے زیر‘ زبر اور پیش کی کئی غلطیاں سرزد ہوئیں تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر تاڑ گئے کہ غزل کسی اور کی ہے... غزل سنانے کے بعد جب موصوفہ اپنی نشست پر واپس آکر جلوہ گر ہوئیں تو ایک مداح شاعر نے ان سے کہا۔
’’محترمہ آپ کے کلام نے واقعی مشاعرہ لوٹ لیا۔‘‘
اس پر سحرصاحب خاموش نہ رہ سکے ، برجستہ تصحیح فرمائی۔’’یوں کہئے برخور دار کہ محترمہ نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ بیچاری غزل پر تو الزام نہ لگائیے...!‘‘
یہ سن کر مداح اور شاعر دونوں زبردستی کی ہنسی ہنس کر چپ ہوگئے۔